Sona shayari

Add To collaction

18-Jun-2022 لیکھنی کی کہانی -

اندھیری راتوں کے پنچھی

 از عائشے مغل 
قسط نمبر12

آپ کون ہیں؟؟؟ اس نے آنے والے نفس سے سوال کیا۔۔۔
یہ بات تم نے اپنے باپ سے نہیں پوچھی بیٹا۔؟؟؟انہوں نے سے سوال کے جواب میں سوال کیا تھا ۔۔۔
کوئی مجھے صاف صاف بتائے گا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے ؟؟عینا زور سے چلائی تھی ۔۔۔۔سوال پہ۔سوال ۔۔اس سب۔میں وہ اتنا الجھ گئی تھی کہ وہ اب کچھ بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی ۔۔۔
بیٹا ۔۔۔تم سننا چاہتی ہو نا سب تو سنو۔۔۔۔دادا جان نے بات شروع کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
اور۔مسٹر خان کو آج لگا تھا کہ آج وہ اپنی بیٹی کو۔کھو دیں گے ۔۔
ولیدبخاری یعنی زین کا باپ اور تمہارے پاپا کسی دور میں ایک اچھے دوست ہوا کرتے تھے۔۔۔دونوں نے مل کر ایک بزنس شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔مرتضیٰ خان ایک قابل بزنس مین بن سکتے تھے اس بات میں کوئی شک نہیں تھا لیکن اسے بزنس شروع کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی ۔۔۔تبھی اس نے یہ بات ولید یعنی میرے بیٹے سے کی۔۔۔
کیا ہوا یار کچھ پریشان لگ رہا ہے ۔۔۔ولید نے مرتضیٰ خان کے چہرے کی پریشانی بھانپتے ہوئے کہا ۔۔۔
کچھ نہیں یار ۔۔۔بس ایسے ہی ۔۔۔مرتضیٰ خان نے ٹالنا چاہا۔۔
اگر تو مجھے اپنا سچا دوست مانتا ہے تو تجھے بتانا ہی پڑے گا ۔۔۔
یار وہ بس پاپا چاہتے ہیں کہ میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاؤں۔۔میں اپنا بزنس شروع کرنا چاہتا ہوں لیکن پاپا ایک پھوٹی کوڑی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں وہ چاہتے ہیں کہ میں خود انہیں کچھ بن کر دکھاؤں ۔۔۔مرتضیٰ نے اپنی پریشانی واضح کی۔۔
میں تیری مدد کرسکتا ہوں اگر تو میری مدد کرے تو ۔۔انہوں نے پرسوچ انداز میں کہا ۔۔۔
میں تیری کیا مدد کر سکتا ہوں ۔۔۔مرتضیٰ نے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
دیکھ میں بھی اتنے ٹائم سے کوئی بزنس شروع کرنے کا سوچ رہا تھا ۔۔؟پیسے تو ہیں میرے پاس بس ٹائم کی کمی ہے۔۔۔تو ایک کام کرتے ہیں میں انویسٹمنٹ کرتا ہوں تو بزنس کو سنبھال اور پرافٹ ففٹی ففٹی کر لیں گے ۔۔۔میں جانتا ہوں کہ تو بزنس کو بہت آگے لے کر جائے گا ۔۔۔تو بتا منظور ہے ۔۔۔ولید نے ساری بات کر کے سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔
ٹھیک ہے مجھے منظور ہے میں پوری کوشش کروں گا ہماری کوششوں کو کامیاب بنانے کی ۔۔۔مرتضیٰ نے پر عزم لہجے میں کہا ۔۔۔
انشاءاللہ ہم ضرور کامیاب ہونگے ۔۔۔ولید کے لہجے میں بلا کا یقین تھا کیوں کہ وہ خود سے ذیادہ اپنے دوست پر یقین رکھتے تھے ۔۔۔
دوست ہو تو تیرے جیسا یار ۔۔آج تو نے میری ساری مشکل ہی حل کر دی ۔۔مرتضیٰ نے ولید کے گلے لگتے ہوئے کہا ۔۔۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁
دادا جان نے کچھ وقفے کے بعد پھر سے بولنا شروع کیا ۔۔
مرتضی اور ولید اس بزنس کو بڑھانے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکے تھے ۔۔۔ولید کو کامیاب اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتے دیکھ ہم نے اس کی شادی کرنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔
اسلام وعلیکم باباجانی ۔۔۔ولید نے اپنے بابا کو اپنے کمرے میں آتے دیکھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔بیٹا میں تم سے کوئی بات کرنا چاہتا ہوں اگر تم فارغ ہو تو۔۔۔انہوں نے شفیق لہجے میں کہا۔۔
مجھ سے بات کرنے کے لیے آپ کو اجازت کی ضرورت نہیں ہے بابا جان۔۔ولید نے آہستگی سے کہا۔۔۔
بیٹا میں چاہتا ہوں کہ اب جب تم اپنے پاؤوں پر کھڑے ہو چکے ہو تو ہم تمہاری شادی کر دیں ۔اگر تمہیں کوئی لڑکی پسند ہے تو بتادو ہمیں تمہاری پسند پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا مسٹر بخاری سیدھا مدعے پر آئے تھے ۔۔۔۔
بابا جان جو آپ کو بہتر لگے آپ کریں اور مجھے کوئی لڑکی پسند نہیں کیونکہ میں نے کسی لڑکی کی طرف آج تک نظر اٹھا کر دیکھا ہی نہیں ۔۔۔آپ جہاں کہیں گے جس سے بھی کہیں گے میں شادی کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن مرتضیٰ پاکستان آئے گا میں تب ہی شادی کروں گا ۔۔۔ولید نے رضامندی دیتے ہوئے کہا ۔۔
ٹھیک ہے بیٹا۔۔ویسے تو میں نے تمہارے لئے لڑکی پسند کر لی تھی بس تمہاری رضامندی کی ضرورت تھی ۔۔تو جب تم نے حامی بھر ہی دی ہے تو مرتضیٰ بیٹا سے کہنا جلدازجلد پاکستان آجائے وہ ۔۔۔مسٹر بخاری نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔۔۔انہیں بھلا کیسے اعتراض ہو۔سکتا تھا ۔۔۔
مرتضی ان دنوں بزنس کے سلسلے میں آؤٹ آف کنٹری گیا ہوا تھا اس کے آنے پر میں نے ولید کی شادی بڑی دھوم دھام سے اپنے دوست لغاری کی بیٹی سے کر دی ۔۔۔وہ لڑکی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت دل بھی رکھتی تھی ۔۔زین کی دادی بہت جلد ہی اس دنیا سے چل بسی تھیں تو کسی عورت کا وجود گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے عمیمہ(زین کی مما) نے اس گھر کو بہت جلد ہی سنبھال لیا وہ ایک بہت اچھی شریک حیات ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی بہو بھی ثابت ہوئی تھی ۔۔ولید کی شادی کے بعد مرتضیٰ پھر سے لندن چلا گیا اور وہاں اس نے تمہاری ماں کو پسند کیا اور اسے ساتھ لیئے پاکستان واپس آگیا ۔۔۔
مرتضی یہ کون ہے ؟؟؟ولید نے اس کے ساتھ کھڑی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔مرتضٰی جب بھی کہیں سے واپس آتا تھا تو ولید ضرور اسے لینے ائیرپورٹ جاتا تھا ۔۔۔
اسکا نام سفیہ ہے اور ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اس کا لندن میں کوئی نہیں تھا تو میں اسے اپنے ساتھ لے کر آگیا ۔۔۔ہم دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے بابا کو منانا پڑے گا ۔۔۔مرتضیٰ نے اپنے اور اس لڑکی کے بارے میں سب بتاتے ہوئے کہا ۔۔۔
اور اگر انکل نہیں مانے تو؟؟ولید نے خدشہ ظاہر کیا ۔۔۔
پاپا ضرور مانیں گے اور انہیں منائے گا تو۔۔۔اس نے ولید کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
میں ۔۔پر میں کیسے منا سکتا ہوں ۔؟؟ولید نے الجھے ہوئے لہجے میں سوال کیا ۔۔
کیا تو اتنا بھی نہیں کر سکتا میرے لیے ۔۔۔؟؟اس نے مصنوعی آنسو بہاتے ہوئے کہا ۔۔
بس بس اپنی یہ ڈرامے بازی شروع مت کرنا اب۔۔سوچتا ہوں کچھ میں ؟؟؟اور چل اب پتا ہے مجھے تو کچھ انتظام تو کر کے آیا نہیں ہو گا اور ابھی اسے اپنے گھر بھی نہیں لےکر جا سکتا ۔۔۔چل اب میرے ساتھ ۔۔۔اور پھر وہ تینوں ولید کی گاڑی میں بیٹھ کر اس کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے ۔۔۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁
یشفع کے نکاح کی تیاریاں زوروشور سے جاری تھیں اس کے نکاح میں بس دو۔ہی دن باقی تھے اور اب بھی وہ نور کے پاس بیٹھی شاپنگ پر ساتھ جانے کے لئے منا رہی تھی اور نورکسی بھ طرح ماننے کو تیار نہ تھی ۔۔ 
نور میں آخری دفعہ پوچھ رہی ہوں تم چل رہی ہو یا نہیں میرے ساتھ ؟؟؟یشفع نے اسے وارننگ دیتے ہوئے پوچھا ۔۔
تم لوگ سمجھتے کیوں نہیں ہو۔؟؟جب میں نے کہا میں نہیں جانا چاہتی تو کیوں میرا پیچھا نہیں چھوڑ دیتے تم لوگ ؟؟وہ ایک دم پھٹ پڑی تھی ۔۔۔
کیا سمجھیں ہم بولو کیا سمجھیں ۔۔۔یہ سمجھیں کہ تمہیں ہم سب کی کوئی پرواہ نہیں ۔۔یا یہ سمجھیں کہ تم جان بوجھ کر مایوسی کے لبادہ اوڑھے بیٹھی ہو اور تم چاہتی ہی نہیں ہو اسں لبادے کو اتارنا ۔۔۔یا یہ سمجھیں کہ تم صرف اپنے لیے جینا چاہتی ہو ۔۔ہم تمہارے لئے کوئی امپورٹنس نہیں رکھتے ۔۔؟؟یشفع نے اسے جھنجوڑتے ہوئے اس سے پوچھا ۔۔۔
جو سمجھنا ہے سمجھ لو پر۔پلیز میرا پیچھا چھوڑ دو ۔۔۔نور نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔۔
نور ایسا نہیں ہے کہ پوری دنیا میں تم انوکھی لڑکی ہو جسکے ساتھ ایسا ہو ہے کچھ سال پہلے میں بھی ایسی ہی تھی اللّٰہ سے شکوہ کرنے والی چھوٹی چھوٹی باتوں سے مایوس ہو جانے والی ۔۔میں نمازیں بھی پڑھتی تھی اور شکوہ بھی کرتی تھی نیکی کی چاہ بھی تھی اور برائی کی طرف قدم بھی اٹھتے تھے ۔۔پھر جانتی ہو میں نے کیا کیا۔۔میں نے اس قرآن کو سمجھا اپنا دنیا میں آنے کا مقصد جانا اور پھر میں نے بس نیکی کی چاہ نہیں کی بلکہ عمل کر کے اس نیکی کو پالیا۔۔۔اور تم نے دنیا میں آکر کسی پر احسان نہیں کیا کہ ہم گریں اور منتظر رہیں کہ کوئی آئے گا اور ہمیں اٹھائے گا اور ہم تبھی اٹھیں گے اور بالفرض ہمیں اٹھانے کے لئے کوئی نہیں آئے گا تو کیا ہم گرے رہیں گے نور؟؟؟اس نے اپنے لہجے میں سختی لاتے ہوئے اس سے پوچھا ۔۔۔
پر نور خاموش نظروں سے اس کی طرف دیکھتی رہی کیوں کہ اس کے پاس جواب ہی نہیں تھا۔۔
کیا ہوا نور کوئی جواب نہیں ہے ناں تمہارے پاس اور ہوگا بھی نہیں کیوں کہ تمہارا حال بھی وہی ہے تم گری ہو اور منتظر ہو کہ کوئی آئے گا اور تمہیں اٹھائے گا اور اگر ایسا ہے نا مس نورالعین تو یہ آپ کی سب سے بڑی غلط فہمی ہے۔۔۔سمجھیں آپ۔۔۔؟؟؟یشفع نے بھنویں اچکاتے ہوئے کہا ۔۔۔
اور آج نور کے سب الفاظ دم توڑ گئے تھے آج اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا وہ بس اتنا ہی کہہ پائی تھی ۔۔
مجھے کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دو پلیز ۔۔۔اور یشفع بنا کچھ کہے وہاں سے نکلتی چلی گئی وہ بھی جانتی تھی کہ ابھی اسے تھوڑا وقت اور درکار ہے زندگی کی طرف لوٹنے کے لئے۔۔۔

   1
0 Comments